সূরাতুন নাস এর তাফসীর
سُوْرَۃُ النّاسِ مَکِّیَّۃ – و ھِیَ سِتُّ آیاتٍ
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ – مَلِکِ النّاسِ ۔ اِلٰہِ النّاسِ ۔
آپ کہیے کہ میں آدمیوں کے مالک آدمیوں کے بادشاہ آدمیوں کے معبود کی پناہ لیتا ہوں۔
مِنْ شَرِّ الوَسْواسِ الخَنَّاسِ –
وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے ۔
الّذِی یُوَسْوِسُ فِی صُدُورِ النّاسِ –
جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے
مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنّاسِ ۔
خواہ وہ جن ہو یا آدمی۔
قُلْ ـ کہدیجیۓ ? اَعُوْذُ ۔ میں پناہ میں آتا ہوں ? بِرَبِّ رب کی ? النّاسِ ۔ لوگ
اِلٰہِ ۔ معبود ? مِنْ ۔ سے ? شَرِّ ۔ شر ? الْوَسْوَاسِ ۔ وسوسہ ڈالنے والے
الخَنَّاسِ ۔ چپ کر حملہ کرنے والے ? الّذِی۔ جو ? یُوَسْوِسُ۔ وسوسہ ڈالتا ہے
فِی۔ میں ? صُدُورِ ۔ سینے ( دل) ? الْجِنَّۃِ ۔ جن ? وَالنّاسِ ۔ اور انسان
۔
سورہ فلق اور سورۃ الناس کے مضامین کا ربط
جیسا کہ گذشتہ درس میں بیان کیا گیا یہ آخری دو سورتیں قرآن پاک کی یعنی قل اعوذ بربّالفلق اور قل اعوذ بربّ النّاس معوذتین کہلاتی ہیں۔ لیکن وہ دو سورتیں جن میں استعاذہ کی تعلیم دی گئی ہے
چنانچہ گزشتہ سورہ فلق میں مضمرات اور شرور دنیوی سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی اور اس سورت میں مضرات اور شرور دینیہ سے اللہ تعالی کی پناہ چاہنے کی ہدایت دی جاتی ہے کیونکہ نعمتیں دو ہی طرح کی ہیں ایک دنیوی یا مادی نعمتیں جسے مال ودولت اولاد و منصب و اقتدار حکومت سلطنت وغیرہ ۔
۔ دوسرے دینی یا معنوی جسے ایمان اسلام اخلاق حسنہ وغیرہ۔ تو گذشتہ سورہ فلق میں جن چیزوں کے شر سے اللہ کی پناہ لینے کی تعلیم دی گئی تھی ۔ وہ سب خارج میں پائی جاتی تھیں۔ مثلا کسی دوسرے کا ظلم کسی چیز سے پہنچنے والی تکلیف جادو یا حسد وغیرہ ۔ لیکن اس سورت میں جس چیز سے پناہ لینے کی تعلیم دی جارہی ہے
وہ وہ شیر ہیں کہ جو خاص انسان کے قلب پر پہنچتے اور اثر کرتے ہیں یعنی شیطانی خیالات اور وساوس جو قلب پر اثر کر کے ایمان کوزائل یا ناقص کردیتے ہیں اور جب قوت ایمانی جاتی رہی تو پھر آدمی دین کا رہا اور دنیا کا۔
اپنے رب ما لک اور معبود کی پناہ میں آ و –
اس سورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے واسطے تمام مومنین کو علم ہے کہ شیطانی خیالات و وساوس سے ہر وقت اللہ کی پناہ مانگتے رہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ قل أعوذ برب الناس ملك النّا إله النّاس
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہۓ کہ میں انسانوں کے رب انسانوں کے بادشاہ اور انسانوں کے معبود کی پناہ لیتا ہوں۔ یہاں اللہ تعالی کی تین صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ – وہ تمام انسانوں کا رب ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ تمام انسانوں کا مالک۔ اور بادشاہ ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ تمام انسانوں کا الہ یعنی معبود ہے۔۔ اگر چہ اللہ تعالی کی شان ربوبیت اور بادشاہت اور معبودیت تمام – مخلوقات کو شامل ہے لیکن ان صفات کا جیسا کامل ظہور انسانوں میں ہوا کسی دوسری مخلوق میں نہیں ہوا اسی لئے ’’رب‘‘ اور ملک اور الہ کی اضافت انسان ہی کی طرف کی گئی۔ نیز شیطانی خیالات اور وساوست میں مبتلا ہونا بجز انسان کے دوسری مخلوقات کی شان بھی نہیں۔ اس لیۓ حکم ہوتا ہے کہ جو بھی پناہ اور بچاؤ کا طالب ہو وہ اس پاک اور بر تر صفات والے خدا کی پناہ میں آجاۓ جو تمام انسانوں کا پالنے اور پرورش کرنے والا ہے ۔ جو تمام انسانوں کا حقیقی مالک
اور شہنشاہ بھی ہے – اور جو معبود حقیقی اور لائق عبادت و بندگی بھی ہے – یہاں ان تین صفات کے ذکر سے یہ بھی اشارہ ہو گیا کہ بندہ صرف اللہ کی پناہ لے جو ان صفات کا مالک ہے – اور کوئی دوسری ان صفات کی مالک نہیں اس لئے اللہ کے سوا کویئ دوسری ذات پناہ طلب کرنے کے لائق نہیں ۔
شیطان کی وسوسہ اندازی سے پناہ مانگو
میں جس چیز کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی جاتی ہے اس کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ اب آگے اس سورت یعنی من شر الوسواس الخنّايس – وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے شیطان کے شر سے وسواس اسے کہتے ہیں جو وسوسہ ڈالے اور وسوسہ دل میں آنے والے برے خیال کو کہتے ہیں شیطان کا کام یہی ہے کہ وہ انسان کے دل میں برے خیالات ڈالا کرتا ہے۔ اور انسان کی نظروں سے غائب رہ کر و انسان کو بہکا تا پھسلاتا ہے۔ اس شیطان کی صفت یہاں خناس فرمائی
وسوسہ اندازی انسان بھی کرتے ہیں :
آگے فرمایا جاتا ہے
ا خواہ وہ جن ہو یا آدمی یعنی شیطان جنات میں بھی ہیں اور انسانوں میں بھی۔ اللہ تعالی دونوں سے یعنی شیاطین الجن اور شیاطین الانس سے ہم کو ہر آن اپنی پناہ میں رکھیں۔ یعنی کچھ ابلیس اور اس کی ذریت پر ہی موقوف نہیں انسانوں میں بھی ایسے ہیں کہ جو ایمان با نیک کام میں یا کار خیر میں وسوسہ اور شبہ ڈال کر چلتی گاڑی میں روڑ ا انکا دیا کرتے ہیں کبھی اپنی سحر بیانی سے کبھی ملمع کار تقاریر سے کبھی مشفق ومہربان کی صورت میں ۔
۔ جو چاہیں کریں۔ جو چاہیں کہیں انہیں کوئی پوچھنے اور رو کنے ٹوکنے والا ہیں ۔ اسلام اور شعائر اسلام کی توہین کرتے ہیں ۔ احکام شریعت پرقہقبہ اڑاتے ہیں ۔ شیدائیان مغرب اور عاشقان یہودیت ونصرانیت اسلام کے لباس میں لوگوں کو الحاد و زندقہ کی دعوت دیتے ہیں
ایک اہم نکتہ
حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدّث و مفسّر دہلوی رح: نے ان دونوں صورتوں یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ النّاس کے
تفسیر کے سلسلہ میں ایک عجیب اور نہایت لطیف نکتہ یہ لکھا ہے – کہ سورہ فلق میں اللہ تعالی کی ایک ہی صفت سے
یعنی جو ربِّ فَلَق ہے تین چیزوں کی بڑائی سے پناہ مانگنے کا حکم ہے – ایک تاریکی کے شر سے ، دوسرے سحر کے
شر سے ، تیسرے حاسد کے حسد کے شر سے ، اور سورۃ النّاس میں ایک ہی چیز کی برائی یعنی شیطان کے وسوسہ سے
حق تعالی کی تین صفتوں سے جو ربُّ النّاس ہے – مَلِکُ النّاس ہے – اور الہ النّاس ہے – پناہ مانگنے حکم ہوا ہے –
اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ دین کی حفاظت مقدّم اور زیادہ ضروری ہے – جان اور بدن کی حفاظت سے –
اس واسطے کہ وسواس شیطانی دین کا کرنے والا ہے اور وہ تینوں جیزیں یعنی تاریکی ، سحر ، اور حسد جان اور بدن کو
ضرر پہنچانے والی ہے – اللہ تعالی ہمیں بھی اپنی جان سے زیادہ اپنے دین و ایمان کو بچانے کی توفیق و ہمّت عطا فرمائیں-
قرآن کریم کی ابتداء و اختتام میں ربط و توافق
اب اخیر میں ایک عجیب لطیفہ جس کو حضرت حکیم الامّت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رح: نے اپنے تفسیر “بیان القرآن” میں
لکھا ہے یہاں خاتمہ پر بتغیّر الفاظ نقل کیا جاتا ہے حضرت لکھتے ہیں کہ اس سورۃ میں جس سے قرآن کا حسن آغاز انجام بھی
ظاہر ہوتا ہے – وہ یہ ہے کہ خاتمۂ قرآن پر اس سورہ کے اور ابتدائے قرآن میں سورۂ فاتحہ کے مضامین میں غایت درجہ کا
تقارب ہے – اور دونوں سے توحید محقق ہے – چنانچہ یہاں سورۃ النّاس میں ربِّ النَّاس ہے – اس کی مناسبت سے سورۂ فاتحہ
میں ربِّ الْعٰلَمِین ہے – یہاں مَلِکِ النّاس ہے – اس کی مناسبت سے سورۂ فاتحہ میں مٰلِکِ یَوْمِ الدِّین ہے – اور یہاں اِلٰہِ النّاس ہے –
اس کی مناسبت سے سورۂ فاتحہ میں ایَّکَ نَعْبُدّ ہے – اور یہاں استعاذہ کی تعلیم ہے – اس کے مناسبت وہاں سورۂ فاتحہ
میں ایَّاکَ نَستَعِینُ ہے – اور یہاں مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ الْخَنّاسِ – الّذِی یُوَسْوِسُ فِی صُدُورِ النّاسِ – مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنّاسِ ہے اس کے
مناسبت سورۂ فاتحہ میں – اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمستَقیم – صِرَاظَ الّذِینَ انْعَمْتَ عَلَیْھِم – غَیْرِ الْمَضْوبِ عَلَیْھِم – ولَا الضَّالِّین-
ہے اور ایک نکتہ مفسِّرین نے ابتداء و اختتام قرآن کی مناسبت میں یہ بھی لکھا ہے – کہ ابتدائے قرآن کی اللہ تعالی
کے وصف ربوبیّت سے تھی اور اَلْحِمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن فرمایا تھا – اور اختتام وصف الوہیّت پر ہوا – اور اِلٰہ النَّاس
فرمایا تاکہ معلوم ہو جائے کہ ربوبیّت کی حق شناسی یہی ہے کہ اسکی الوہیّت میں کسی کو شریک نہ کیا جاوے
اور اسی کی شکر گزاری کے ساتھ عبادت واطاعت میں عمر گزار دی جاے –
امام ابن قیّم رحمہ اللہ فرماتے ہیں – کہ ان دو سورتوں سے کوئی شخص بھی مستغنی نہیں – یہ جسمانی اور روحانی آفات دور
کرنے میں بے حد مؤثر ہے – قرآن کے آخر میں ان دو سورتوں کے لانے اور سورۂ فاتحہ سے شروع کرنے میں بڑی گھری
مناسبت ہے – سورۂ فاتحہ میں بھی اللہ کی مدد مانگی گئی تھی اور ان دونوں سورتوں میں بھی یہی مضمون ہے گویا کہ اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ بندے کو ابتداء سے انتہاء تک اللہ کی طرف متوجّہ رہنا چاہئیے – اور اس سے مدد مانگتے رہنا چاہئیے
سورۂ ناس میں اللہ کی تین صفات مذکور ہیں – ربوبیّت ، مالکیّت ، اور الٰہیّت – یہ تین صفات ذکر فرما کر ایک چیز کے شر سے
پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے – اور وہ ہے وسوسہ ڈالنے والے کا شر – اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وسوسہ کتنی خطر ناک اور
مہلک بیماری ہے – وسوسہ شیطان بھی ڈالتا ہے اور انسان بھی ، آج کا سارا مغربی میڈیا مسلمانوں کے دلوں میں ایمان کے
حوالے سے وسوسہ اندازی میں مصروف ہے – اور وسوسے کی بیماری بہت عام ہو چلی ہے – اس لئے کثرت کے ساتھ
ان دو سورتوں کو ورد زبان بنانے کی ضرورت ہے –
یہاں یہ نکتہ بھی سمجھ لیا جاۓ کہ سورۂ فلق میں ایک صفت ذکر فرما کر چار آفات سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا تھا –
اور یہاں چار صفات ذکر فرما کر ایک آفات کے شر سے پناہ مانگنے حکم دیا گیا ہے اس لئے کہ پہلی سورت میں نفس
اور بدن کی سلامتی مطلوب ہے – جبکہ دوسری سورت میں دین کے ضرر سے بچنا اور اسکی سلامتی مطلوب ہے –
اور دین کا چھوڑنے سے چھوٹا نقصان دنیا کے بڑاے سے بڑے نقصان سے زیادہ خطرناک ہے – اگر ہم نے قرآن سے
سچا تعلّق قائم کیے رکھا اور اسے پڑھنے ، سمجھنے ، اس پر عمل کرنے اور اسکے سارے حقوق کی ادائیگی کی کوشش
کرتے رہے تو انشاء اللہ ہمارا اور ہماری آنےوالی نسلوں کی دین و ایمان محفوظ رہے گا –
سورۃ النّاس کے خواص
Thank you for reading the post.